Orhan

Add To collaction

محبت ہو گئی ہے

محبت ہو گئی ہے 
از قلم اسریٰ رحمٰن
قسط نمبر9
آخری قسط

شادی کے دو ہفتہ پہلے ہی اسے مایوں میں بٹھا دیا گیا تھا.. وہ دن بھر اپنے کمرے میں بیٹھی اپنی سوچوں سے لڑتی رہتی.. جب بہت زیادہ تھک جاتی تو اللہ سے بہتری کی دعا مانگنے لگتی.. اسد آیا تھا یا نہیں وہ اس سے بالکل انجان تھی.. اور کسی نے اسے کچھ بتانے کی توفیق بھی نہیں کی تھی.. اسے مکمل پردے میں کر دیا گیا تھا.. احد وغیرہ نے بھی اس سے ملنے یا بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی.. ان سب کے آنے سے گھر کافی رونق لگی رہتی.. وہ سب ہر وقت کچھ نہ کچھ الٹے سیدھے کام کرکے جمشید صاحب کے غصے کو ہوا دیتے.. بھابھیاں بھی ان کے ساتھ ان کی شیطانیوں میں شامل ہو جاتیں.. بھائی لوگوں کے ساتھ مل کر ان سب نے شادی کی ساری ذمہداریاں اٹھائی تھیں.. ہر کام میں وہ سب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے پھر بھی جمشید صاحب سے گالیاں سنتے.. 
ابھی وہ عشاء کی نماز پڑھ کر اٹھنے ہی والی تھی کہ کوئی دروازہ ناک کرتا ہوا اندر داخل ہوا.. مڑ کر دیکھا تو نازیہ بیگم ہاتھوں میں کچھ شاپرز لئے اندر داخل ہو رہی تھیں ساتھ میں وہ دشمنِ جاں بھی تھا جو اتنے دنوں سے اس کی سوچوں پر قبضہ جماۓ ہوئے تھا.. ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا.. 
" عفیرہ بیٹا دیکھو اسد تمہارے لئے کتنا پیارا جوڑا لے کر آیا ہے.. تم دیکھ کر بتاؤ کیسا ہے.." نازیہ بیگم بیڈ پر شاپرز رکھتے ہوئے بولیں تو اس نے اسد کی طرف دیکھا جو دروازے سے ٹیک لگائے اسے ہی دیکھ رہا تھا.. اس نے دوبارہ نازیہ بیگم کی طرف دیکھا جو شاپرز سے لال رنگ کا ایک بہت ہی نفیس اور بھاری گرارہ نکال کر بیڈ پر پھیلا رہی تھیں..   
" کیسا ہے.."
" بہت ہی خوبصورت اور بہت ہی بھاری ہے.. پر اس کی کیا ضرورت تھی.." اس نے دل کھول کر تعریف کی..
" کیوں نہیں ضرورت تھی.. آخر تم دلہن ہو.. اور اسد کی خواہش ہے کہ نکاح کے وقت تم یہی پہنو.." نازیہ بیگم کی پر وہ کنفیوز سی باری باری دونوں کو دیکھنے لگی.. جو مسکرا رہے تھے..
" پر.. پر چچی نکاح کے وقت تو میں.. مطلب کہ لڑکی اپنے سسرال کا جوڑا پہنتی ہے نا.." اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا..
" ہاں میرا بچہ.. تو تم بھی اپنے سسرال کا جوڑا پہننا.. منع کون کر رہا ہے.." نازیہ بیگم اسد کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں..
" پر آپ نے تو کہا کہ.."
" بس کر دیں چچی کیوں میری معصوم سی نند کو ڈرا رہی ہیں.." اس سے پہلے کہ وہ اپنا جملہ پورا کرتی بڑی بھابھی جلدی سے اندر داخل ہوتی ہوئی بولیں ان کے پیچھے باقی سب بھی کمرے میں داخل ہو گئے.. سب کے چہرے پر مسکراہٹ تھی.. اس نے کنفیوز ہوکر جنید صاحب کی طرف دیکھا جو اسد کے پاس کھڑے اسے ہی دیکھ رہے تھے.. اسے کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا ہو رہا ہے..
" ادھر آؤ میری گڑیا.." جنید صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے اسے اپنی طرف بلایا تو وہ جلدی سے جاکر ان کے سینے سے لگ گئی.. 
" عفیرہ بیٹا ان سب نے مل کر تمہارے ساتھ ایک چھوٹا سا مزاق کیا تھا.."
" کیسا مزاق.. " اس نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا..
" یہی کہ.. میں بتا دوں.." احد نے بولتے ہوئے اسد سے اجازت مانگی تو اس نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا..
" تمہاری شادی.. تمہاری شادی جو ہے نا.. وہ عاکف نے کہا کہ تم اس کے ٹائپ کی نہیں ہو تو.. تو تمہاری شادی نہیں ہو رہی.." احد کے بڑھا چڑھا کے کہنے پر سب نے گھور کر اسے دیکھا جب کہ عفیرہ کے پلے کچھ بھی نہ پڑا..
" مطلب کہ تمہاری شادی ہو رہی ہے لیکن عاکف سے نہیں... تمہارے اس کھڑوس اسد بھائی سے ہو رہی ہے.." احد کے کھڑوس کہنے پر اسد نے اسے گھور کر دیکھا جبکہ باقی سب مسکرا دئیے.. اس نے حیرانی سے جنید صاحب کی طرف دیکھا تو انہوں نے سر ہلا کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا..
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
بارات اور ولیمے کے فنکشن کے لئے ہوٹل بُک کیا گیا تھا.. اسد نے دو ہفتہ پہلے آکر ہی ہوٹل کی ساری ارینجمیمٹ سنبھال لی تھی.. باقی کا سارا کام ان چاروں نے کیا تھا اور بخوبی کیا تھا.. اسد پہلی بار اپنے بھائیوں کے کام سے پوری طرح متاثر ہوا تھا.. 
" کیا یار کب سے باتھ روم میں گھسے ہو.. بارات نکلنے کا وقت ہو رہا ہے اور دولہے میاں کو نہانے سے ہی فرصت نہیں ہے.. باتھ روم میں ہی قبول ہے کہنے کا ارادہ ہے کیا تمہارا.." وہ کافی دیر سے بڑبڑا رہا تھا.. سارے مہمان آچکے تھے.. جمشید صاحب باہر اس کا انتظار کر رہے تھے اور وہ تھا کہ اسے نہانے سے ہی فرصت نہیں مل رہی تھی..
" اسد اب اگر تم نہیں نکلے نا تو بائی گاڈ میں نکاح کر لوں گا عفیرہ سے.." اس نے باتھ روم کے دروازے میں منہ گھسا کر کہا تو کھٹاک کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا اور اسد گیلے بالوں کو تولئے سے رگڑتا ہوا باہر نکلا..
" کیا بولا.." 
" وہی جو تم نے سنا.." اس نے ڈھٹائی سے کہا تو اس نے گیلا تولیہ اس کے اوپر اچھال دیا..
 کیونکہ اسے گیلے تولیوں سے گھن آتی تھی..
" کیا بدتمیزی ہے یہ.." تولئے کو چٹکی سے پکڑکر اسے صوفے پر پھینک دیا..
" اور جو تم نے کیا وہ کیا تھا.."
" فلرٹ.." وہ ہنستا ہوا دروازے کی طرف بھاگا کیونکہ وہ جانتا تھا وہ اسے چھوڑنے والا نہیں...
" پانچ منٹ میں ریڈی ہوکر باہر نکلو ورنہ وہی ہوگا جو میں نے کہا ہے.." دروازے کے باہر سے اس نے ہانک لگائی تو وہ مسکراتا ہوا ڈریسنگ روم میں گھس گیا..
جب وہ تیار ہوکر باہر آیا تو سب اسی کا انتظار کر رہے تھے..
" چلیں ٹائم ہو رہا ہے.." اس نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا تو احد اس کے انداز پر ہنس دیا..
تھوڑی دیر بعد بارات اپنی منزل پر پہنچ گئی تھی.. بارات کا سواغت بہت دھوم دھام سے ہوا تھا.. وہ چاروں اسد کے ساتھ ساتھ تھے.. سب کی نظر ان پانچوں پر تھی جو مسلسل باتیں کئے جا رہے تھے.. جمشید صاحب نے نظر بھر کر اپنے ان پانچ بگڑے شہزادوں کو دیکھا
جو لوگوں کی نظروں سے بےخبر آپس میں مگن تھے..
نکاح کے بعد مبارک باد کا شور اٹھا.. جمشید صاحب نے اسد کو گلے لگا کر خوب دعائیں دیں.. پھر باری باری باقی لوگ بھی اس سے گلے مل مبارک باد دینے لگے..
" شادی مبارک ہو پیارے بھائی.." آخر میں ان چاروں نے اسے زور سے گلے لگایا تو وہ ہنس دیا وہاں پر موجود باقی لوگ بھی ان کے انداز پر مسکرا دئیے..
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
وہ تھکا ہارا سا اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا کہ ان چاروں نے اسے دروازے کے پاس ہی روک دیا...
" یہ کیا بیہودگی ہے.." اس نے گھور کر انہیں دیکھا..
" بیہودگی نہیں رسم ہے.. نکالو بیس بیس ہزار روپے ہم چاروں کے.." احد نے اس کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوئے خالص لڑکیوں والے انداز میں کہا..
" ابھی اسّی ہزار روپے دئیے تھے نا.." اس نے حیرانی سے کہا..
" وہ تو تمہارے پلان میں شامل ہونے کے لئے تھا.. بھولو مت.." فہد نے اسے یاد دلانے کی کوشش کی..
" تو یہ کس بات کا مانگ رہے ہو.." 
" بیوی کے پاس جانے کا.." احد نے شرارت سے آنکھ دبائی تو وہ اسے گھور کر رہ گیا..
" صرف اسّی ہزار تو ہیں بھائی دے دیں جلدی سے.." دائم نے اسے بہلاتے ہوئے کہا..
" صرف اسّی ہزار.. میں ابھی ڈیڈ کو بتاتا ہوں.." اس نے ان چاروں کو ڈرامے کی کوشش کی..
" مام ڈیڈ تو کب کا سو چکے پیارے بھائی اس لئے بہتری اسی میں ہے کہ آپ ہماری ڈیمانڈ پوری کریں.." صائم کے مزے سے کہنے پر وہ تینوں ہنس دئیے..تبھی کھٹاک کی آواز سے روم کا دروازہ کھلا تو ان چاروں نے حیران ہوکر اپنے پیچھے دیکھا جہاں عفیرہ دلہن کے لباس میں چہرے پر ہلکا سا گھونگھٹ ڈالے سہج سہج چلتی باہر آرہی تھی..
" بیس ہزار میرا بھی.." ٹھیک ان چاروں کے بیچ میں کھڑی ہوتی وہ اس کی طرف دیکھ کر بولی جو حیرانی سے منہ کھولے اسے ہی دیکھ رہا تھا..
" یہ کیا بیوقوفی ہے.. چلو اندر چلو.." اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے گھور کر اسے دیکھا..
" کوئی بیوقوفی نہیں ہے چلو نکالو جلدی سے ایک لاکھ روپے اب تو تمہاری بیوی بھی کہہ رہی ہے۔۔" احد اس کی سچویشن سے مزے لے رہا تھا..
" کیسی بےشرم لڑکی ہو.. شادی کی پہلی رات منہ کھولے شوہر سے لڑ رہی ہو.." اس نے اسے شرم دلاتے ہوئے کہا..
" آپ کو شرم نہیں آئی ہونے والی بیوی کو بیوقوف بناتے ہوئے.." وہ دوبدو بولی وہ حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگا..
" نکاح کے دو بول بولتے ہی تمہارے منہ میں تو زبان آگئی.." اس کی بات پر سب قہقہہ لگا کر ہنس دئیے تو وہ شرما کر سر جھکا گئی..
" ٹھیک ہے میں تم لوگوں کی ڈیمانڈ پوری کر دوں گا لیکن ایک شرط پر.." 
" کیسی شرط.." ان سب کے پوچھنے پر اس نے گہری نظروں سے عفیرہ کو دیکھا جو اس کے دیکھنے پر سر جھکا گئی تھی..
" اس سے کہو کہ مجھے آئی لو یو بولے.." 
" میری بہن اتنی بےشرم نہیں ہے.." احد جلدی سے بولا..
" اچھا تو تمہاری بہن کی اس حرکت کو کس لسٹ میں شامل کیا جائے.." اس نے مزے لے کر کہا تو احد گڑبڑا کر عفیرہ کو دیکھا..
" اب اتنا بھی کیا شرمانا عفیرہ شوہر ہی ہے.. بول دو.." فہد کے کہنے پر وہ پیچھے کی طرف کھسکنے لگی..
" میدان چھوڑ کر بھاگنے والے بزدل ہوتے ہیں.." اسد نے پھرتی سے اس کا ہاتھ پکڑا تو اس آنکھوں ہی آنکھوں میں اس سے التجاء کی..
" بول دو ہم اپنے کان بند کر لیتے ہیں.." دائم نے کانوں میں باقاعدہ انگلی ڈال دی تھی..
" اچھا کان میں بول دو .." اس کے چہرے کو بغور دیکھتا ہوا وہ اس کی طرف جھکا.. اس کی آنسؤوں سے لبریز آنکھیں دیکھ کر اس کے ہاتھ گرفت ڈھیلی پڑ گئی.. اسے احساس ہوا کہ اس کچھ زیادہ ہی مزاق کر دیا..
" جاؤ تمہیں اپنی شرط سے آزاد کرتا ہوں.." اس کے کہتے ہی وہ دوڑ کر اندر بھاگی تو باقی سب مسکرا دئیے..
"رلا دیا نا اسے.. اب جا چپ کرا اسے.." احد اسے کمرے کی طرف دھکیلتا ہوا بولا تو وہ ہنس دیا.. اور دروازہ کھول اندر داخل ہو گیا.. جہاں وہ معصوم سی پری ناراض سے اس کا انتظار کر رہی تھی.. اس نے دھیرے سے دروازہ بند کیا اور اس کی طرف بڑھنے لگا جو چہرہ گھٹنوں میں چھپائے بیڈ پر بیٹھی تھی..
" ناراض ہو.." وہ دھیرے سے اس کے پاس بیٹھتا ہوا بولا تو وہ نفی میں سر ہلا گئی لیکن اب بھی اسی انداز میں بیٹھی ہوئی تھی..
" ناراض نہیں ہو تو چہرہ کیوں چھپایا ہے.."
" بس ایسے ہی.." رندھی ہوئی آواز میں جواب آیا..
" اچھا میری طرف دیکھو.."
" مجھے نیند آرہی ہے.."
" سیدھی طرح سے میری بات سن رہی ہو یا..." اس کی بات پوری بھی نہ ہو پائی تھی کہ اس نے جھٹ سے سر اٹھا دیا..
" مجھے آپ سے بات نہیں کرنی.." 
" اچھا یار سوری.. تم بھی تو ان کے ساتھ مل گئی تھی.." اس کے ہاتھ میں کنگن ڈالتے ہوئے اس کے چہرے کو دیکھا..
" اس بات پر نہیں.."
" تو کس بات پر.."
" مجھے بیوقوف جو بنایا  تھا سب کے ساتھ مل کر.." 
" اچھا وہ.. وہ تو بس ایسے ہی.."
" ایسے ہی.. آپ کی وجہ سے میں کتنا روئی.."اس نے حیرانی سے اسے دیکھا تو وہ ہنس دیا..
" کیوں روئی تھی.. مجھ سے محبت ہو گئی تھی.." اس نے شرارتی انداز میں اس کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہ پزل سی ہو کر نفی میں سر ہلا گئی..
" لیکن مجھے تو ہو گئی تھی.." اس نے بے یقینی سے اسے دیکھا..
" ہاں عفیرہ مجھے تم سے محبت ہو گئی تھی.. اتنی کہ میں خود حیران رہ گیا تھا.. میں تمہیں بتانا چاہتا تھا اپنے احساسات اور جذبات.." وہ اس کی چوڑیوں سے کھیلتا ہوا اسے اپنی محبت کا یقین دلا رہا تھا جبکہ وہ چہرے کے ہر نقش کو غور سے دیکھ رہی تھی.. کتنا مکمل ہے یہ شخص...
" اب اتنا گھور گھور کر مت دیکھو ورنہ پیار ہو جائے گا.." 
" تو کیا ہوا اپنے شوہر سے ہی ہوگا نا.." اسے بولنے کے بعد احساس ہوا کہ وہ کیا بول گئی ہے جبکہ وہ اسے دلچسپی سے دیکھ رہا تھا..
" ایک بار اور بولنا.."
" کیا.." وہ انجان بن گئی..
"اچھا مجھ سے ڈرامے بازی.." اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا تو وہ کھلکھلا کر اس کے سینے سے لگ گئی کیونکہ یہی اس کی آخری پناہ گاہ تھی..
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
ختم شد

   1
0 Comments